loading...
عین الحیات فاونڈیشن

حضرت امام رضا علیہ السلام کا اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک

تحریر سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

حضرت امام رضا علیہ السلام کے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ۳۵ سالہ امامت کی پوری زندگی مشکلات و مختلف حادثوں کے ساتھ گزری ہے اورآپ کو زیادہ تر وقت  کے حاکم ہارون رشید کے قید خانے میں رکھا گیا ، امام رضا علیہ السلام اپنے والد کے قید خانے کی زندگی کے دوران پوری طرح سے معاون و حمایت کرتے رہے اور تمام غموں و مشکلات میں اپنے بابا کے ہم غم و شریک تھے، کبھی بھی  قدرت طلب و حکومت خواہوں کے آگے نہیں جھکے اور لوگوں کو شدت کے ساتھ ظالم خلیفہ کی مدد کرنے سے روکتے رہے۔ اور چونکہ آپ کےبابا زیادہ تر قیدخانے میں رہے لہذا گھر کا سارا انتظام و دیکھ بھال کا ذمہ آپ کے سپرد تھا ، اس مدت میں آپ نے کسی کو بھی گھروالوں کی بی احترامی نہیں کرنے دی، اور دشمنوں کے تمام تر خطرات سے بچاتے رہے۔

اپنے گھر والوں سے محبت کی بات خود حضرت امام رضا علیہ السلام کے بیٹے امام جواد علیہ السلام کے حوالے سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب آپ کی عمر زیادہ  ہوگئی تھی اور آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی تو کسی نے آپ سے کہا تھا کہ آپ بچوں کو بہت چاہتے ہیں تو خدا سے کیوں نہیں اپنے لئے بچے کی دعا کرتے ہیں؟ امام رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: خدا وندعالم مجھے ایک بیٹا دے گا جو میرا وارث ہوگا، اور جب امام جواد علیہ السلام کی ولادت ہوگئی تو امام رات بھر آپ کے  گہوارے کو جھلایا کرتے تھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ پیار و محبت فرمایا کرتے تھے آپ اپنے بیٹے کو اتنا چاہتے تھے کہ رات میں خود سوتے نہیں تھے ۔آپ سے کسی نے کہا کیا لوگ اپنے بیٹے  کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں؟  آپ  نے فرمایا : یہ میرا بیٹا کوئی عام  بچہ نہیں ہے ، اس  کا دنیا میں آنا ، بڑا ہونا اس کے پاک اجداد کی طرح ہے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ آپ کا سلوک اتنا محبت آمیز تھا کہ آپ اپنے بیٹے کو نام سے نہیں پکارتے تھے بلکہ احترام کے لئے آپ کی کنیت کے ذریعہ پکارتے تھے ،مثال کے طور پر فرماتے تھے : ابو جعفر نے میرے لئے لکھا ہے اور میں نے ابوجعفر کے لئے لکھا ہے۔ اس طریقے سے آپ چاہتے تھے کہ آپ کا احترام کیا جائے ۔ اسی طرح امام رضا علیہ السلام اپنی بہن حضرت معصومہ قم کے ساتھ بھی خصوصی محبت و لگاو رکھتے تھے۔

امام جہاں خود بھی اپنے آپ کو پاکیزہ رکھتے تھے وہیں گھروالوں کے لئے تمام امکانات فراہم کیا کرتے تھے اور جو لوگ گھروالوں کے لئے امکانات فراہم کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں خاص طور پر مرد حضرات کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ اپنے گھر والوں کے لئے آرام و سکون کے امکانات فراہم کیا کریں۔اسی طرح فرماتے تھے کہ ایک مرد کے لئے مناسب و ضروری ہے کہ اپنے گھرانے کے لئے مالی اعتبار سے  کمک کرے تا کہ وہ لوگ اس کے مرنے کی آرزو نہ کرے۔[وسائل الشیعہ، ج ۱۵، ص ۲۴۹]۔

اسی طرح فرماتے تھے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی لذت گھر کے بڑے ہونے اور دوستوں کے زیادہ ہونے میں ہے ۔[مسند امام رضا ، ج ۲، ص ۳۷۴]۔اس کے علاوہ خود آپ نے اپنے ایک خادم کے لئے ایک مناسب گھر خریدا اور اس سے فرمایا کہ چونکہ تمہارا گھر چھوٹا ہے لہذا تم اب اس گھر میں رہو، اس شخص نے کہا مولاؑ میرے لئے پہلے والا  گھر ہی ٹھیک ہے چونکہ میرا باپ بھی  اسی  گھر میں  گذارا کرلیتا تھا ۔  امام نے فرمایا: اگر تمہارا باپ  بے عقل تھا  تو تم بھی اسی  کے مانند رہوگے۔[بحارالانوار، ج۷۳، ص ۱۵۳]۔

اسی طرح امام اپنے خاندان والوں کے ساتھ خوش اخلاقی و نیک رفتاری کے ساتھ پیش آتے تھے اور فرمایا بھی کرتے تھے  کہ: قیامت میں وہ شخص مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوگا جو دنیامیں اپنے گھرانےوالوں کے ساتھ سب سے زیادہ  خو ش  اخلاق و نیکی کرنے والا ہوگا۔ [وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۱۵۳]۔

دوستو! اور عزیزو! اسی ماہ ذی القعدہ کی ۱۱ ویں تاریخ کو  ہمارے آٹھویں  امام حضرت علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت  ہے اور ایک روایت کےمطابق اسی مہینے کی ۲۳ ویں تاریخ کو آپ کی شہادت بھی واقع ہوئی ہے، گویا یہ مہینہ امام رضا علیہ السلام  ہی کا ہے۔ لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی امام کے اخلاق  کو اپناتے ہوئے اپنے گھروالوں  کے ساتھ اچھا سلوک  کرے ، زیادہ سے زیادہ ان کو  خوش رکھنے کی  کو شش  کریں  چاہےاپنے اچھے اخلاق اور سلام  و دعا ہی کے  ذریعہ ہو ۔

حضرت امام رضا علیه السلام کی زیارت کی فضیلتیں

تحریرسیداکبر علی جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

امام رضا علیه السلام کی زیارت کی فضیلتوں میں سے چند فضیلت هم یھاں بیان کرینگے:

۱۔ پہلی فضیلت:

حضرت امام رضا علیه السلام کی زیارت حضرت امام حسین علیه السلام کی زیارت پر فضیلت رکھتی ہے شاه عبدالعظیم حسنی  نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جواد علیه السلام کی خدمت میں عرض کیا که میں حیران و پریشان ھوں که حضرت سیدالشهدا علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوؤں یا آپ کے پدربزرگوار کی زیارت کے لیے جاؤں۔ آپ نے فرمایا؛ تھوڑا انتظار کروآپ اندر داخل ہوئے جب آپ باہر نکلے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے،احتمالا اپنے بابا کی جدائی میں آنسو بھارہے تھے ۔آپ نے فرمایا:حضرت سیدالشهداء امام حسین علیہ السلام کے زائرین بہت زیادہ ہیں لیکن میرے باپ کی زیارت کرنے والے بہت کم ہیں.

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت امام جواد علیہ السلام نے فرمایا کہ :میرے بابا کی زیارت افضل ہے کیونکہ حضرت اباعبدالله الحسین کی زیارت پر تمام لوگ جاتے ہیں لیکن میرے پدر بزرگوار کی زیارت کے لئے صرف آپ کے شیعہ جاتے ہیں ۔

اس روایت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کا ہر فرقہ امام حسین علیہ السلام کو مختلف جہات مثلاً راه خدا میں شہادت یا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا فرزند ہونے کی وجہ سے محترم سمجھتا ہے - اورشیعوں کے دوسرے فرقے جیسے کیسانیہ، زیدیہ، اسما عیلیہ وغیرہ... سب حضرت سیدالشهداء امام حسین علیہ السلام کی امامت کو قبول کرتے ہیں جب کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کو ماننے والے شیعہ صرف وہی ہیں جو آپ کی ولایت و امامت کا معتقد ہیں  اور ان کی تعداد بھی باقیوں کی بہ نسبت کم ہے۔ لہٰذا روایات میں ان کے لئے ۔عار فابحقہ ۔یعنی ان کی معرفت رکھتے ہوئے زیارت کرنے کا ذکر ہوا ہے یعنی انہیں واجب الا طاعتہ امام سمجھتے ہوئے زیارت کرنا۔

۲۔ دوسری فضیلت:

حضرت امام رضا علیہ السلام کے زائرین  کو تمام انبیاء و اولیاء اور آئمہ علیہ السلام کے زائرین پر فضیلت حاصل ہے – جیسا کہ سلیمان بن حفص کہتا ہے میں نے حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی بھی میرے بیٹے علی  علیہ السلام کی زیارت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ستر 70مبرو رو مقبول حجوں کا ثواب عطا کرے گا - میں نے تعجب کرتے ہوئے کہا:ستر مقبول حجوں کا ثواب؟ آپ نے فرمایا :ہاں پھر فرمایا. ستر ہزار مقبول حجوں کا ثواب اسے ملے گا میں نے تعجب کرتے ہوئے پوچھا کیا ستر ہزار مقبول حجوں کا؟ آپ نے فرمایا بعض حج ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن جو بھی میرے بیٹے کی زیارت کرے گا یا ایک رات آپ کے مرقد کے پاس گزارے گا وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے عرش پر خدا کی زیارت کی ہو - پھر میں نے تعجب کرتے ہوئے پوچھا :کیا وہ اس طرح ہے جس نے خدا کی عرش پر زیارت کی ہو؟ آپ نے فرمایا: روز قیامت گزشتگان میں سے چار افراد حضرت نوحؑ،  حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسٰی ؑاور آخری زمانے میں سےحضرات محمدؑ، علیؑ، حسنؑ اور امام حسین علیہم السلام عرش خدا کے ارد گرد ہوں گے اور یہ محفل جاری رہے گی یعنی ان کے علاوہ اور بھی وہاں پر حاضر ہوں گے؛ قبور آئمہ علیہم السلام کے زائرین اسی محفل میں ہمارے ہمنشین ہوں گے اسکے بعد فرماتے ہیں۔الا انا اعلاها درجة و اقربهم حبوته زوار قبر والدي على۔ بے شک بلند ترین درجہ بہترین ہدیہ و عنایت میرے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے زائرین کے ساتھ مخصوص ہے۔

۳۔ تیسری فضیلت :

حضرت رضا علیہ السلام کے زائرین کو ضمانت دی گئی ہے کہ اس کے گزشتہ و آئندہ تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا؛ امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں؛ جو شخص میرے پدر بزرگوار کی توس ميں زیارت کرے گا. اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ آئندہ گناہ معاف کردے گا. روز قیامت اس کا منبر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر کے سامنے لگایا جائے گا وہ بڑے آرام سکون سے اس منبر پر بیٹھے گا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری بندے تک حساب کتاب لے لے گا - اس روایت میں دو جہتیں ہیں:

اول: گناہ ہوں کی بخشش۔

دوم: حساب کتاب میں آسانی۔

۴۔ چوتھی فضیلت:  

روز قیامت لوگوں کے اعمال دیکھے جائیں گے لیکن حضرت رضا علیہ السلام کا زائرین رسول اکرم ص کے پاس بڑے آرام سے منتظر بیٹھا ہو گا؛ تاکہ لوگوں کا حساب و کتاب ختم ہو جائے ۔

تیسری فضیلت میں یہ ذکر ہوا تھا کہ گزشتہ و آئندہ کے گناہ بخش دیے جائیں گے لیکن اس جگہ بیان ہوا کہ اس کا محاسبہ و حساب کتاب نہیں ہو گا۔

 ابراہیم جعفری مہران سے نقل کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام جواد علیہ السلام سے سوال کیا کہ جو شخص آپ کے والد بزرگوار کی زیارت کے لئے جائے گا اسے کیا اختیار دیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا؛ میرے باپ کی زیارت کرنے والے کے گزشتہ و آئندہ کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

ماخوذ از  کتاب سیرت امام رضا علیہ السلام، ص 142۔

حضرت امام رضا علیہ السلام اور قرآن سے استدلال

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ سوال کرنے والوں، خاص طور پر مخالفین کے سوالوں کے جوابات کو قرآن کی روشنی میں پیش فرماتے تھے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام جن کی ولادت کے ایام چل رہے ہیں، اگر ہم آپ کی سیرت میں بھی دیکھیں تو قرآنی جوابات اور قرآن سے استدلال خاص طور پر نظر آتے ہیں۔ آئیے آج کی تحریر میں بعض اہم استدلال کا مطالعہ کرتے ہیں:

حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور آیہ مباھله سے منفرد استدلال

ایک دن مامون رشید  نے امام علی رضا علیہ السلام سے کہا: امیر المومنین علیہ السلام کی سب سے بڑی فضیلت کیا ہے جس کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے؟ حضرت رضا علیہ السلام نے اس سے فرمایا: وہ فضیلت جو آیہ مباھله میں ہے ۔ کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:«فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ». (سورہ آل عمران۔ آیت ۶۱)۔

            رسول خدا (ص)،حضرات امام حسن و امام حسین (علیھما السلام) کو  اپنے ساتھ لے گئے ۔ لہذا قرآن کی رو سے حسنین علیھما السلام آپ (ص)کے بیٹے شمار ہوئے ۔ اور جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے ساتھ لے گئے ۔لہذا  مذکورہ  آیت کی روشنی میں جناب سیدہ (سلام اللہ علیھا) عورتوں کی مثال بن گئیں۔ پھر  امیر المومنین علی(ع) کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ لہٰذا حکم خدا کے  مطابق امیر المومنین (علیہ السلام)، نبی کریم (ص) کے "نفس" يعني جان ہیں۔ اور دوسری طرف یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ خدا کی مخلوقات میں سے کوئی بھی خدا کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) سے افضل نہیں ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق کوئی شخص بھی خدا کے نبی حضرت محمد مصطفٰی(ص) کی جان سے  بھیافضل نہ ہو ۔

قرآن کی روشنی میں آل رسول(ص)  کی برتری

مامون عباسی نے نامور علماء کی ایک نشست میں امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: کیا خدا نے عترت رسول (ص) کو دوسرے لوگوں پر فوقیت و فضیلت دی ہے؟ امام نے قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے قرآن مجید عترت رسول اللہ ص کی فضیلت کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ مامون نے پوچھا: یہ فضائل قرآن میں کہاں ہیں؟ امام رضا علیہ السلام نے قرآن مجید کی متعدد آیات کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت فرمائی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاک بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو.

            پھر امام علیہ السلام نے اپنی تقریر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اس آیت کو سننے کے بعد مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے تسلیم کرنے کا مطلب یہ سمجھا کہ ہم آپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کریں، لیکن صلوات کیسے پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللهم صل على محمد وآل محمد كما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد.

اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرار دیا ہے۔ یہ کہنے کے بعد حضرت ع  نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ کیا اس بیان میں کوئی اختلاف ہے؟ َسب کہنے لگے: نہیں۔ اس وقت مامون نے کہا کہ یہ ایک متفقہ بیان ہے اور اس سلسلے میں امت اسلامیہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اس کے بعد مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کہا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ قرآن مجید سے آلِ محمد (ص) کی برتری کے بارے میں زیادہ صاف اور شفاف آیت بیان کریں! آٹھویں امام نے فرمایا: آپ کی رائے، اس  آیہ مبارکہ میں یاسین سے مراد  کیا ہے: یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ . یعنی یٰس۔ قرآن حکیم کی قسم۔ آپ ص مرسلين ميں سے ہیں ، بالکل سیدھے راستے پر ہیں

            تمام علماء مجلس نے کہا : یٰس سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کرتا۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اس آیت کریمہ میں خداوند متعال نے آل محمد (ص)کی ایسی فضیلت بیان کی ہے جس کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا بجز غور و فکر کے ذریعہ ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی پر سلام نہیں بھیجا سوائے اھلبیت پیغمبر(ص) کے ، جیسا کہ فرمایا: "سلامٌ علی آلِ یاسین"    حضرت رضا علیہ السلام کے اس  عمدہ استدلال اور بیان سن کر مامون علماء  کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ان آیات کی تفسیر اور  شرح سوائے معدن نبوت یعنی اھلبیت محمد (ص) کے کوئی نہیں کر سکتا .

امام مہدی (عج) اور قاتلین شہداء کربلا سے انتقام

مرحوم شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ عبدالسلام ھروی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: ایک دن مجھے حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور میں نے امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا جس میں آپ نے فرمایا: جب امام زمان ع ظھور فرمائیں گے تو وہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی تمام اولادوں کو ان کے آباء و اجداد کے اعمال کی بنا پر قتل کریں گے ۔  کیا یہ سچ ہے؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ہاں یہ سچ ہے۔ میں نے کہا: قرآن کی وہ آیت ہے جو یہ کہتی ہے"لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ" اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ؟ آپ نے فرمایا: خدا تعالیٰ اپنی تمام باتوں میں دیانت دار اور سچا ہے لیکن حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولادیں اس لئے کہ وہ اپنے باپ دادا کے کاموں سے راضی تھیں اور اپنے برے اعمال اور حرکتوں پر فخر کرتے تھے۔پس وہ ان کے جرم میں شریک ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص دوسرے کے عمل سے مطمئن ہو، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، وہ اس کے جزا و سزا میں شریک ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مغرب میں ظلم کرے اور مشرق میں کوئی دوسرا شخص اس کے کام سے مطمئن اور خوش ہو، تو اس صورت میں اسے جرم میں شریک سمجھا جاتا ہے۔ پھر مزید فرمایا: امام زمان علیہ السلام ایسے لوگوں کو قتل کریں گے۔ اسکے بعد میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول! امام الزمان علیہ السلام ظھور کے بعد سب سے پہلے کون سے کام انجام دینگے؟ اس کے جواب میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جب امام زمان ع ظھور فرمائنگےتو وہ سب سے پہلے مکہ میں بنی شیبہ کو شھر مکہ میں سزا دیں گے، کیونکہ یہ سب سے پہلے چور ہیں۔ خدا کے گھر کا سارا مال چوری کر لیا ہے اور اسلام کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ کاٹینگے۔ (عیون اخبار الرضا علیہ السلام: جلد 1، ص 273، ح 5۔)

 

حضرت امام رضا علیہ السلام  کی نگاہ میں یقین کی اہمیت

تحریر: محمد علی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ

 

حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ:

"اَلْإِيمَانُ أَفْضَلُ مِنَ اَلْإِسْلاَمِ بِدَرَجَةٍ وَ اَلتَّقْوَى أَفْضَلُ مِنَ اَلْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ اَلْيَقِينُ أَفْضَلُ مِنَ اَلتَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ لَمْ يَقْسِمْ بَيْنَ بَنِي آدَمَ شَيْئاً أَقَلَّ مِنَ اَلْيَقِينِ"۔

ایمان  اسلام  سےایک درجہ افضل ہے ،تقوی  ایمان  سے ایک درجہ افضل ہے ،اور یقین ایمان سےایک درجہ افضل  ہے اور بنی آدم   کے درمیان   یقین  سے کم تر  کوئی  چیز   تقسیم  نہیں  کی گئی ہے ۔ (بحار الانوار  ،ج78،ص338)

            میرا مورد بحث  یقین ہے  ۔یقین    شک   کےمقابل  میں آتاہے کہ جس  کا معنی    واضح  اور روشن   ہے  ۔ ایمان  کے افضل ترین  مرتبہ کو  یقین  کہا جاتاہے  ۔سور ہ واقعہ کی آیت نمبر  95   کےمطابق   یقین  کےتین مرحلے  ہیں  علم الیقین ،عین الیقین اور حق الیقین ،پہلا مرحلہ  عام لوگوں کےلئے ۔دوسرا مرحلہ  متقی لوگوں  کےلئے ہے اور تیسرا مرحلہ   خدا  کےمقرب بندوں کےلئےہے۔ یہ بہت ہی  طویل  بحث ہے    لہذا ہم کچھ  نکات  کی طرف اشارہ کر یں گے۔

1۔یقین،     قدر ت   کی وہ عظیم  نعمت ہے   جس کو مل جاتی ہے  وہ  پھر    در بدر  نہیں  بھٹکتا،مثال  کےطور پر مجھے کسی فلاں  جگہ  جانا ہے اور وہاں  کےبارے میں  مجھے یقین  ہے کہ فلاں  جگہ  ہے بغیر  سوچے وہاں  چلےجائیں گے کیونکہ  ہم  اس کےبارےمیں کسی معتبر ا نسان سے سن رکھاتھے ،لیکن   وہاں  کےبارے میں شک ہو   تو راستہ  بھٹکنےکا امکان ہے۔

2۔موت  بھی ایک حقیقت ہے جس  کو  ہر انسان    اکثر  دیکھتا رہتاہے کبھی خود  کےگھر میں یا گاؤں  میں یا شہر میں  مگر ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہمیں اس پر یقین  ہی  نہیں ہے ۔جس  طرح  کوئی صاحب یقین  اپنے منزل کی طرف بغیر  سوچے سفر پر  نکل جاتاہے۔   مگر ایسا کیوں ہے موت پر یقین  رکھتےہوئے  اپنےکردار میں کوئی تبدیلی نہیں  لاتے ؟جیسے معلوم ہوتاہےکہ موت پر یقین ہی  نہیں ہے۔ہم  اتنے لوگوں کو جاتے ہوئے دکھتےہیں  پھربھی وہی  کام کرتےہیں کو برسوں سےکرتےچالےآئیں ہیں۔

3۔ہم جیسے عام لوگوں  کےلئے  ہےکہ  علم الیقین    کتابوں اور استادوں   کی سنی ہوئی تقریروں  سے  حاصل    کریں  مگر  حق  الیقین  اسی کو حاصل ہوگا  کہ جس کارابطہ    حق (پروردگار) سے ہو   ۔کبھی ایسا  بھی ہوتاہے کہ کسی کا حق سےاتنا گہر ا رابطہ ہوتاہےکہ خود  بھی  حق کا محور بن جاتاہے جیسے  حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نےحضرت علی علیہ السلام  کےبارے میں فرماتے ہیں:( عَلِی مَعَ الحَقَّ وَالحَقُّ مَعَ عَلِی، اللّهُمَّ أدِرِ الحَقَّ مَعَ عَلِی حَیثُما دارَ۔(الاحتجاج،ج1،ح61،ص364)۔ علی حق  کےساتھ  ہیں اور حق  علی  کےساتھ  (آپ دعا فرماتےہیں ) ائے اللہ حق کو ادھر موڑدے جدھر علی موڑیں۔         

 لہذااگرحق  کو مجسم  کی صورت میں دکھنا ہو   حضرت علی علیہ السلام کو دیکھو۔اگر خود  کوحق کی راہ پر چلاناچاہتے ہو تو  علی  کی سیرت پر چلو۔ اگر حق  کی تلاش میں ہوتو حضرت علی  علیہ السلام کےبارےمیں مطالعہ کرو۔کیوں  کہ وہی شمع ہدایت   ہیں جن کوسعادت ،نجات،کامیابی ،جنت کا حصول  تمام کمال کی چابی خدا نےعلی علیہ السلام کو قر ار دی  ہے۔

4۔یقین   اتنا  گوہر نایاب ہے ،اتنا قیمتی ہےکہ خدا نے بہت کم لوگوں  میں تقسیم کیا ہے،اب سوال ہوگا کہ جب خدا نےہی اس کو کم لوگوں میں تقسیم کیا ہےتو سارے لوگ کہاں سے صاحب یقین ہوسکتے ہیں۔تو اس  کےجواب میں یہ کہاجاسکتاہےکہ اس یقین  کےمقدمات  ہم   نے خود نہیں فراہم کئے ہیں  ہم جانتے ہیں اس کائنات کی نقشائیاں  اتنی حیران کن   ہیں  پھر بھی  ہمیں اس نقاش پر یقین  نہیں آتا۔آپ درختوں  کےان پتوں کو غور سے دکھیں کہ جس کی بناوٹ کیسی ہےکیا ہو خود سےہوگئی ۔اس چونٹی  کےجسم کو دیکھیں  جس   میں حیات کی   تمام چیز یں پائی جاتی ہے(یعنی یقین  کےخدا نےبہت دوازے رکھیں  ہیں پر ہم  اس میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔

5۔حضرت امام رضا علیہ السلام نےاس حدیث  میں درجہ  بندی کی ہے کہ ایمان  اسلام سےایک درجہ افضل  ہے۔۔۔اگر  ہر ایک کی  تمام شرائطوں کو پورا کیا جائے  بہ فضل الہی  ان تمام مدارج کو طےکیا جاسکتاہے۔خود تاریخ میں ہے حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کےبعض  صحابی   ان درجوں پر فائز  تھےمگر  افسوس کا مقام یہ ہےکہ ہم ابھی پہلے در جہ پر ہی  مکمل طورسے پورے نہیں  اترتے۔ میں آپ کی بات نہیں  کرتا   ۔میں اپنی بات کرتا ہوں  جب تنہائی میں اپنے کاموں پر نگاہ کرتاہوں تو سارےکا اپنےمرضی  کےنظر آتے ہیں ،کوئی ایسا کام  نہیں ملتا جو مخلصانہ  خدا کےلئےہوں    تو پھر تسلیم کا معنی مجھ پر منطبق نہیں ہوتا۔

خداوندعالم  ہمیں  اہل بیت  کا حقیقی عاشق بنا کہ  جس میں  تمام مدارج ہیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی( ۷) اہم نصیحتیں

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

سات چیزیں ایسی ہیں جو باقی سات کے بغیر مضحکہ خیز ہیں:

 1- وہ شخص جو زبان سے تو استغفار کرتا ہے لیکن دل میں پشیمان نہیں ھے  گویا اس نے اپنے ساتھ مذاق کیا ہے ۔

 2- جو اللہ سے جنت مانگتا ہے لیکن مشکلات میں صبر نہیں کرتا اس نے اپنا مذاق اڑایا۔

 3- وہ شخص جو کامیابی چاہتا ہے لیکن کوشش نہیں کرتا اس نے اپنا مذاق اڑایا۔

 4- ایک شخص جو دور اندیشی کا متلاشی ہے لیکن احتیاط نہیں کرتا اس نے اپنا مذاق اڑایا ہے۔

 5- جس نے جہنم کی آگ سے خدا کی پناہ مانگی لیکن دنیاوی خواہشات کو ترک نہ کیا اس نے اپنے ساتھ مذاق کیا ہے۔

 6- جس نے موت کو یاد کیا اور اس کے لیے خود کو تیار نہ کیا اس نے اپنا مذاق اڑایا۔

 7- اور جس نے خدا کو یاد کیا لیکن اس سے ملاقات کیلئے جلدی نہیں کی اس نے اپنا مذاق اڑایا۔

  (بحار الانوار، ج 11، ص 356)

حضرت امام رضا علیہ السلام کی 12 خصوصیات

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

 ابراہیم بن عباس جو کہ امام رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک ہیں، امام رضا علیہ السلام کے صفات بیان کرتے ہیں:

۱- میں نے امام رضا علیہ السلام کو کبھی اپنی باتوں سے کسی کو ستاتے ھوئے نہیں دیکھا۔

۲-کبھی کسی کی بات کاٹتے ھوئے نہیں دیکھا۔

۳-کبھی بھی کسی ضرورت مند کو اپنے گھر سے خالی ھاتھ نہیں لوٹایا۔

۴-کبھی بھی دوسروں کے سامنے اپنے پاؤں دراز کر کے نہیں بیٹھے۔

۵-کبھی بھی دوسروں کے سامنے ٹیک لگاکر نہیں بیٹھے ۔

۶-کبھی کسی کی توہین نہیں کی۔

۷-کبھی بھی عوامی جگہوں پر لعاب دھن نہیں ڈالتے تھے۔

۸-کبھی بھی قھقھه لگا کر نہیں ھنستے  تھے بلکہ آپ کی ہنسی  صرف مسکراہٹ کی حد تک رہتی تھی۔

۹- آپ علیہ السلام  گھر والوں، نوکروں اور محافظوں کے ساتھ زمین پر ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔

۱۰- آپ علیہ السلام رات میں بہت کم سوتے تھے ۔اور  اکثر راتوں کو صبح تک ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔

۱۱- آپ علیہ السلام بہت روزے رکھتے تھے۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزےتو بالکل نہیں چھوڑتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ تمام مہینہ  کے روزوں کے برابر ہے۔

۱۲- آپ علیہ السلام بہت خیرات فرماتے تھے اور اکثر اندھیری راتوں میں خفیہ  طور پر خیرات کرتے تھے۔

(عيون اخبارالرضا، ج2، ص184)

 

ماہ ذی قعدہ بروز اتوار کی با فضیلت نماز

تحریر: سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ

 

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری توبہ قبول ہوجائے؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوجائیں؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارے [مادی و معنوی] قرض مانگنے والے ہم سے راضی ہوجائیں؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن ہم کو دشمن رکھنے والے بھی ہم سے راضی ہوجائیں؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ با ایمان موت آئے؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ موت کے وقت ہمارا دین ہم سے نہ چھن جائے؟

آیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قبر وسیع اور نورانی ہوجائے؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین ہم سے راضی ہوجائیں؟

کیا ہم چاہتے ہیں ہمارے والدین کے شامل حال مغفرت ہوجائے؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل معاف کردی جائے؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لئے رزق و روزی کی فراوانی ہو؟

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ملک الموت، مرنے کے وقت ہمارے ساتھ مہربانی کرے اور روح نکالنے میں آسانی سے کام لے؟

مذکورہ تمام فضائل کی حامل ایک نماز  ہے جس کو ماہ ذی قعدہ میں اتوار کے دن پڑھنے کے تاکید ہوئی ہے اور اس کے مذکورہ فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔

اس نماز کا طریقہ کیا ہے؟

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ:

سب سے پہلے غسل کرنا ہے ، اس کے بعد وضو کرکے چہار رکعت نماز، دو دو رکعت کرکے پڑھنا ہے۔

ہر رکعت میں  سورہ حمد کے بعد تین مرتبہ سورہ توحید ایک  ایک مرتبہ سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھنا ہے۔

چاروں رکعت تمام ہونے کے بعد ۷۰ مرتبہ استغفار  ["استغفر اللہ "] کہنا ہے۔

اس کے بعد ایک مرتبہ"لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ" پڑھنا ہے۔

اس کے بعد ایک مرتبہ "يَا عَزِيزُ يَا غَفَّارُ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَ ذُنُوبَ جَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ فَإِنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ" پڑھنا ہے۔

[اقبال الاعمال، سید بن طاووس، ترجمه محمد روحی، جلد 2، صفحه 13 ۔ و مفاتیح الجنان، اعمال ماہ ذی القعدہ]۔

 بہترین اولاد

🔻پیامبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

نِعمَ الوَلَدُ البَناتُ المُخَدَّراتُ، مَن كانَت عِندَهُ واحِدَةٌ جَعَلَهَا اللّه ُ سِترا لَهُ مِنَ النّارِ، وَ مَن كانَت عِندَهُ اثنَتانِ أَدخَلَهُ اللّه ُ بِهِمَا الجَنَّةَ ، وَ إِن كُنَّ ثَلاثا أو مِثلَهُنَّ مِنَ الأخَواتِ ، وَضَعَ عَنهُ الجِهادَ وَ الصَّدَقَةَ

بہترین اولادباحجاب بیٹیاں ہیں ۔ جس کی ایک بیٹی ہو، اللہ تعالیٰ اسے، اس کے لئے جہنم کی ڈھال قرار دیتا ہے۔ اور جس کی دو بیٹی ہو، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ اور اگر کسی کے یہاں تین بیٹیاں یا ان کے جیسے تین بہنیں ہوں تو اللہ تعالیٰ اس پر سے جہاد اور (مستحبی) صدقے کو معاف کردیتا ہے۔

📚  روضة الواعظين۔ ص ۴۰۴۔

حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) اور حضرت فاطمہ معصومہ قم (علیہاالسلام) کی دس شباہتیں

 

تحریر : سید رعایت حسین رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ

 

اس مقالے میں ہم بطور اختصار 10 شباہتیں جو جناب فاطمہ معصومہ قم علیہاالسلام اور آپ کی جدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہرا علیہاالسلام میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے ان کو بیان کریں گے۔

١ : ولادت سے پہلے ہی خوشخبری اور نام گزاری

جیسا کہ جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی ولادت سے پہلے رسول خدا ص کو نعوذ باللہ ابتر کے طعنے دیے جاتے تھے جس سے آپ کا دل غمگین ہو جایا کرتا تھا اس لیے خدا نے قرآن میں خیر کثیر یعنی کوثر کا ذکر کر کے اپنے حبیب کو جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی ولادت کی خبر دی اور جبرائیل کے ذریعے سے خدا کی طرف سے آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا ٹھیک اسی طرح سے جناب فاطمہ معصومہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی خبر تمام شیعیان کو دی جاتی ہے اور آپ کا نام بھی ولادت سے پہلے ہی رکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : عنقریب میری نسل سے ایک با کرامت خاتون قم میں دفن ہوں گی کہ ان کا نام فاطمہ ہے

٢‌ : نام اور لقب میں اشتراک

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمنام ہے اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی  اور دوسرا یہ کہ آپ شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی اور جیسا کہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا لقب معصومہ تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے آپ کو بھی ایک امام معصوم ( امام علی رضا علیہ السّلام ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے.

٣ : مدافع ولایت

            حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی پوری زندگی ولایت حقہ کی دفاع میں گزار دی یہاں تک کہ آپ کو اس راہ میں شہید کر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی اپنی جد ماجدہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ولایت حقہ (ولایت امام علی رضا علیہ السلام) کی ترویج کی اور کئی حدیثوں کو اپنے چاہنے والوں کے لیے نقل کیا جیسے کہ حدیث غدیر حدیث منزلت وغیرہ وغیرہ اور زیادہ تر حدیثیں جو آپ سے نقل ہوئی ہیں ولایت اور امامت حضرت علی کو ثابت کرتی ہے کہ جن کی ولایت اور امامت ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے اماموں کی بھی ولایت اور امامت ثابت ہو جاتی ہے۔

٤ : مقام علم

مقام علمیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اظہر من الشمس ہے کہ آپ علم ما‌ کان و ما یکون کی منزل پر فائز تھیں آپ ہی کے علم کے جریان سے مستفیض ہوتے ہوئے جناب معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی علم حاصل کیا اور جب معصومہ کے مقام علم کو آپ کے والد محترم جناب موسی کاظم علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا فداھا ابوھا اور یہی الفاظ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کے لیے بھی استعمال کیے ہیں۔

٥ : مقام شفاعت

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی روز محشر اپنی جدہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ ہم زیارت نامے میں پڑھتے ہیں اشفعی لنا فی الجنہ یا امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ہے کہ آپ فرماتے ہیں:... و تُدْخَلُ بشفاعَتِها شیعَتی الْجَنَّهَ بِاَجْمَعِهِمْ.

٦ : زیارت ماثورہ

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کے لیے بھی امام معصوم علیہ السلام کی طرح زیارت نامہ موجود ہے۔ جب کہ غیر معصومین میں سے حضرت ابوالفضل اور حضرت علی اکبر علیہما السلام کے علاوہ کسی کے لیے زیارتنامہ روایت میں وارد نہیں ہوا ہے اور یہ زیارت نامہ آپ کے مقام اور منزلت کی تصدیق کرتا ہے باوجود اس کے کہ آپ امام معصوم نہیں ہیں لیکن آپ کی عظمت اتنی ہے کہ اپ کے لیے زیارت نامہ وارد ہوا ہے البتہ جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو مختلف طرق سے نقل کیا گیا ہے لیکن جناب معصومہ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے

٧ : کریمہ

سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ معصومہ کا روضہ پوری تاریخ میں ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے پناہ گاہ رہا ہے اور تمام لوگ، نہ صرف شیعہ بلکہ سنی بھائی بھی، خصوصی توجہ اور عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ  کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ ان کی حاجت روائی کرتی رہتی ہیں اس لیے آپ لوگوں کے درمیان کریمہ اھل بیت کے لقب سے مشہور ہیں ۔ اور جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) سلام اللہ علیھا کے کریمہ ہونے پر پورا سورہ  دہر ( سورہ انسان ) دلالت کرتا ہے

٨ : شہرت خاص و عام

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذاتِ اقدس کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ کا چرچہ زبان زدہ خاص و عام ہے ٹھیک اسی طرح حضرت معصومہ کی عمر تقریباً 28 سال تھی جب آپ نے اپنے محترم بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے ارادے سے اور شیعہ تعلیمات کی ترویج کے مقصد سے ایران قدم رکھا اور اس وقت بھی آپ کی شخصیت شیعوں کے درمیان مشہور و معروف تھی۔ قم کے شیعہ حتیٰ کہ ابن خزرج اشعری بھی اس دور کی مشہور شخصیات میں سے ایک تھے جو امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی بیٹی کو ان نام سے جانتے تھے، کیونکہ محترم خاتون، دونوں زمانوں میں ہی جب آپ مدینہ میں رہتی تھیں ۔ اور جب آپ نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا تو لوگوں کے درمیان مشہور تھیں ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیعوں کو آپ کی معرفت تھی اور معلوم تھا کہ کون سی عظیم شخصیت ایران میں داخل ہو رہی ہیں اور جیسا کہ آپ کی معرفت حاصل کرنے کا حکم حدیثوں میں بھی ملتا ہے ( من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنہ)

٩ : کفو اور ھمسر

            یہ نکتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا عام انسانوں میں سے کوئی بھی کفو و ھمسر نہیں تھا لہذا فقط امام معصوم حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہی آپ کے ھمسر و کفو قرار پائے۔ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بھی اپنی محترم والدہ کی طرح غیر معصوموں میں کوئی کفو نہیں  تھا۔

١٠ : ثواب زیارت قبر مطہر

علمی اور عملی کمالات کے لحاظ جناب معصومہ کی شخصیت منفرد نظر آتی ہے اور اگرچہ آپ کا مزار مقدس ظاہر ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک کی طرح پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس مکاشفہ کے مطابق جو بعض علماء اور اولیاء خدا پر ہوا ہےامام باقر یا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: "جو شخص حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت کرے گا وہ وہی ثواب حاصل کرے گا جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کی زیارت کرنے والا کا ہے۔" ( علیک بکریمہ اھل البیت ).

والسلام علیکم

حضرت معصومه (علیہاالسلام )کی عظمت اور خصوصیات

تحریر: سید محمدشاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ

  

آپ (س) کی عمر چھ سال تھی جب ان کے والد کو قید کیا گیا اور وہ چار سال تک اپنے والد کے دیدار سے محروم رہیں یہاں تک کہ آپ س کی عمر دس سال کی تھی جب ان کے والد کی شہادت ہوئی۔ آپ کی عمر سترہ سال تھی اور وہ اپنے معزز بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ رہتی تھیں ۔ جب آپ اپنے بھائی کے دیدار کے لیے قم آئیں تو وہیں ان کا انتقال ہو گیا اور دو سال بعد امام رضا ع  کو بھی  شہید کر دیا گیا۔

حضرت معصومہ (س) کی وہ خصوصیات  جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں ۔

1۔ ہجرت:

 قرآن کی صریح آیات کے مطابق ہجرت کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے اور جو شخص خدا کے لیے ہجرت کرتا ہے اور اس راہ میں مرتا ہے تو اس کے اجر کا حساب اللہ ہی کرے گا اور اسے ایک شہید کے ثواب کے برابر اجر ملے گا۔

2۔ مدافع ولایت:

امیر المومنین علی (ع) کی امامت کے بارے میں سب سے محکم اور  متواتر حدیث غدیر ہے اور جس نے اس حدیث غدیر کو حساس ترین وقت میں لوگوں کے کانوں تک پہنچایا، حضرت فاطمہ معصومہ (س) ہیں ۔ آپ نے  اس حدیث کا بیان ہارون و مامون کے دور خلافت میں جو اپنے آپ کو مسلمانوں کا حقیقی رہنما سمجھتے تھے، ان کے خلاف سخت قدم تھا، اور آپ کا یہ اقدام امامت کے سلسلے میں سب سے اہم دفاع سمجھا جاتا تھا۔

۳۔ آپ کا محدثه ھونا:

اپنی مختصر سی زندگی میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے احادیث اور روایات بیان کرتی تھیں، لیکن آج ان میں سے بہت سی روایتیں تاریخی تحولات کی وجہ سے ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔

۴۔ شفاعت کرنے والی : 

حضرت معصومہ (س) کی شفاعت کا مقام ایک منفرد اور اعلیٰ مقام ہے۔

۵۔ چار اماموں کا خصوصی اھتمام:

آپ س کی زیارت کے سلسلے میں ائمہ کرام ع  نے متعدد احکام ذکر کیے ہیں جن کی روایتیں موجود ہیں۔ یہ باتیں حضرت معصومه س کی شخصیت کو نمایاں  اور ان کی منزلت کو  ظاہر کرتی ہیں۔

مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی(قدس سرہ )طالب علموں سے  باربار کہا کرتے تھے:

میرے قم آنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد آغا سید محمود مرعشی نجفی - جو نجف کے ایک مشہور زاھد اور عبادت گزار تھے، نے چالیس راتیں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں گزاریں۔ . تاکہ جناب امیر ع کی زیارت کا شرف حاصل ہوسکے چنانچہ ایک رات مکاشفہ کی  حالت میں انھوں نے حضرت علی ع کو دیکھا امام نے  ان سے فرمایا: سید محمود تم کیا چاہتے ہو؟

وہ کہتے ہیں : میں جاننا چاہتا ہوں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کہاں ہے؟ تاکہ انکی زیارت کروں تو امام ع نے فرمایا: میں ان کی وصیت کے خلاف ان  کی قبر نہیں بتا  سکتا۔

وہ کہتے ہے: تو میں ان کی زیارت کے لئے کیا کروں؟

امام ع نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے حضرت فاطمہ معصومه س کو  جلال و جبروت حضرت فاطمہ س سے نوازا ہے۔ لہٰذا جو شخص حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت کرنا چاہتا ہے وہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کرے۔

حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی فرماتے ہیں:

 ایران کے رھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ اس عظیم خاتون (س )کی زیارت سے غفلت نہ برتیں۔

مرحوم علامہ طباطبائی جب قم میں رہتے تھے تو رمضان کے مہینوں میں افطار کرنے سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضے  پر حاضری دیتے تھے اور بوسہ لے کر افطار کرتے تھے۔

سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی سفارش :

 ہمیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی والا صفات بہت زیادہ قدر کرنا چاہیے۔ بہر حال، وہ  بلا فصل امام زادی ہیں ۔ وہ امام کی بیٹی، امام کی بہن، امام کی پہوپھی ہیں، وہ بہت عظیم ہیں، اس لیے ہمیں ان کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنا  چاہیے، خاص طور پر اہل قم کو... تمام مسلمانوں اور اہل علم   اور خاص کر علماء و مشائخ ان کی زیارت کریں .

آیت اللہ بہجت  سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے بارے میں پوچھا گیا: «مَنْ‏ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الْجَنَّة؛جو شخص ان کا حق جانتے ہوئے حضرت س کی زیارت کرتا ہے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے "عَارِفاً بِحَقِّهَا" کا کیا مطلب ہے؟

آپ نے فرمایا: ”ان کے مقام کو معصومین ع کے مقام سے کم  اور دوسری تمام مخلوقات سے بلندتر سمجھو۔

جب امام خمینی حضرت معصومہ (س) کے روضه  میں درس دیتے تو ہر روز درس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے ضریح مبارک پر حاضری دیتے تھے۔اور جب تک وہ قم میں تھے  باقاعدگی سے ہر روز صبح کے درس کے بعد اور کبھی شام کے درس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے حرم کی زیارت کرتے تھے۔

تعداد صفحات : 12

اطلاعات کاربری
  • فراموشی رمز عبور؟
  • آرشیو
    آمار سایت
  • کل مطالب : 115
  • کل نظرات : 2
  • افراد آنلاین : 2
  • تعداد اعضا : 0
  • آی پی امروز : 11
  • آی پی دیروز : 38
  • بازدید امروز : 19
  • باردید دیروز : 52
  • گوگل امروز : 0
  • گوگل دیروز : 0
  • بازدید هفته : 19
  • بازدید ماه : 1,342
  • بازدید سال : 7,032
  • بازدید کلی : 7,032