حضرت امام رضا علیہ السلام کا اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک
تحریر سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران
حضرت امام رضا علیہ السلام کے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ۳۵ سالہ امامت کی پوری زندگی مشکلات و مختلف حادثوں کے ساتھ گزری ہے اورآپ کو زیادہ تر وقت کے حاکم ہارون رشید کے قید خانے میں رکھا گیا ، امام رضا علیہ السلام اپنے والد کے قید خانے کی زندگی کے دوران پوری طرح سے معاون و حمایت کرتے رہے اور تمام غموں و مشکلات میں اپنے بابا کے ہم غم و شریک تھے، کبھی بھی قدرت طلب و حکومت خواہوں کے آگے نہیں جھکے اور لوگوں کو شدت کے ساتھ ظالم خلیفہ کی مدد کرنے سے روکتے رہے۔ اور چونکہ آپ کےبابا زیادہ تر قیدخانے میں رہے لہذا گھر کا سارا انتظام و دیکھ بھال کا ذمہ آپ کے سپرد تھا ، اس مدت میں آپ نے کسی کو بھی گھروالوں کی بی احترامی نہیں کرنے دی، اور دشمنوں کے تمام تر خطرات سے بچاتے رہے۔
اپنے گھر والوں سے محبت کی بات خود حضرت امام رضا علیہ السلام کے بیٹے امام جواد علیہ السلام کے حوالے سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب آپ کی عمر زیادہ ہوگئی تھی اور آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی تو کسی نے آپ سے کہا تھا کہ آپ بچوں کو بہت چاہتے ہیں تو خدا سے کیوں نہیں اپنے لئے بچے کی دعا کرتے ہیں؟ امام رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: خدا وندعالم مجھے ایک بیٹا دے گا جو میرا وارث ہوگا، اور جب امام جواد علیہ السلام کی ولادت ہوگئی تو امام رات بھر آپ کے گہوارے کو جھلایا کرتے تھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ پیار و محبت فرمایا کرتے تھے آپ اپنے بیٹے کو اتنا چاہتے تھے کہ رات میں خود سوتے نہیں تھے ۔آپ سے کسی نے کہا کیا لوگ اپنے بیٹے کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : یہ میرا بیٹا کوئی عام بچہ نہیں ہے ، اس کا دنیا میں آنا ، بڑا ہونا اس کے پاک اجداد کی طرح ہے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ آپ کا سلوک اتنا محبت آمیز تھا کہ آپ اپنے بیٹے کو نام سے نہیں پکارتے تھے بلکہ احترام کے لئے آپ کی کنیت کے ذریعہ پکارتے تھے ،مثال کے طور پر فرماتے تھے : ابو جعفر نے میرے لئے لکھا ہے اور میں نے ابوجعفر کے لئے لکھا ہے۔ اس طریقے سے آپ چاہتے تھے کہ آپ کا احترام کیا جائے ۔ اسی طرح امام رضا علیہ السلام اپنی بہن حضرت معصومہ قم کے ساتھ بھی خصوصی محبت و لگاو رکھتے تھے۔
امام جہاں خود بھی اپنے آپ کو پاکیزہ رکھتے تھے وہیں گھروالوں کے لئے تمام امکانات فراہم کیا کرتے تھے اور جو لوگ گھروالوں کے لئے امکانات فراہم کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں خاص طور پر مرد حضرات کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ اپنے گھر والوں کے لئے آرام و سکون کے امکانات فراہم کیا کریں۔اسی طرح فرماتے تھے کہ ایک مرد کے لئے مناسب و ضروری ہے کہ اپنے گھرانے کے لئے مالی اعتبار سے کمک کرے تا کہ وہ لوگ اس کے مرنے کی آرزو نہ کرے۔[وسائل الشیعہ، ج ۱۵، ص ۲۴۹]۔
اسی طرح فرماتے تھے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی لذت گھر کے بڑے ہونے اور دوستوں کے زیادہ ہونے میں ہے ۔[مسند امام رضا ، ج ۲، ص ۳۷۴]۔اس کے علاوہ خود آپ نے اپنے ایک خادم کے لئے ایک مناسب گھر خریدا اور اس سے فرمایا کہ چونکہ تمہارا گھر چھوٹا ہے لہذا تم اب اس گھر میں رہو، اس شخص نے کہا مولاؑ میرے لئے پہلے والا گھر ہی ٹھیک ہے چونکہ میرا باپ بھی اسی گھر میں گذارا کرلیتا تھا ۔ امام نے فرمایا: اگر تمہارا باپ بے عقل تھا تو تم بھی اسی کے مانند رہوگے۔[بحارالانوار، ج۷۳، ص ۱۵۳]۔
اسی طرح امام اپنے خاندان والوں کے ساتھ خوش اخلاقی و نیک رفتاری کے ساتھ پیش آتے تھے اور فرمایا بھی کرتے تھے کہ: قیامت میں وہ شخص مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوگا جو دنیامیں اپنے گھرانےوالوں کے ساتھ سب سے زیادہ خو ش اخلاق و نیکی کرنے والا ہوگا۔ [وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۱۵۳]۔
دوستو! اور عزیزو! اسی ماہ ذی القعدہ کی ۱۱ ویں تاریخ کو ہمارے آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے اور ایک روایت کےمطابق اسی مہینے کی ۲۳ ویں تاریخ کو آپ کی شہادت بھی واقع ہوئی ہے، گویا یہ مہینہ امام رضا علیہ السلام ہی کا ہے۔ لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی امام کے اخلاق کو اپناتے ہوئے اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، زیادہ سے زیادہ ان کو خوش رکھنے کی کو شش کریں چاہےاپنے اچھے اخلاق اور سلام و دعا ہی کے ذریعہ ہو ۔